Friday, March 20, 2015

خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا


 
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
دل لے کے مفت کہتے ہیں کہ کام کا نہیں
اُلٹی شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا
دیکھا ہے بُت کدے میں جو اے شیخ، کچھ نہ پوچھ
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا
افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا
گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
بزمِ عدو میں صورت پروانہ دل میرا
گو رشک سے جلا تیرے قربان تو گیا
ہوش و ہواس و تاب و تواں داغ جا چکے  
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا