تجھے ہے مشقِ ستم کا ملال ویسے ہی
ہماری جان تھی جاں پر وبال ویسے ہی
چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا
سو آ گیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی
ہم آ گئے ہیں تہہِ دام تو نصیب اپنا
وگرنہ اُس نے تو پھینکا تھا جال ویسے ہی
میں روکنا ہی نہیں چاہتا تھا وار اُس کا
گری نہیں مرے ہاتھوں سے ڈھال ویسے ہی
زمانہ ہم سے بھلا دشمنی تو کیا رکھتا
سو کر گیا ہے ہمیں پائمال ویسے ہی
مجھے بھی شوق نہ تھا داستاں سنانے کا
فرازؔ اُس نے بھی پوچھا تھا حال ویسے ہی
Ahmed Faraz