Friday, March 27, 2020

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک 
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ 
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک 

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب 
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک 

تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر 
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہوتے تک 

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن 
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک 

پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم 
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک 

یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل 
گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہوتے تک

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج 

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک