Friday, March 27, 2020

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے




دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے 
آخر اس درد کی دوا کیا ہے 

ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار 
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے 

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں 
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے 

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود 
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے 

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں 
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے 

شکن زلف عنبریں کیوں ہے 
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے 

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں 
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے 

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید 
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے 

ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا 
اور درویش کی صدا کیا ہے 

جان تم پر نثار کرتا ہوں 
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے 

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ 

مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے