اب کے لگتا ہے کہ یہ دکھ ہی ٹھکانے کا نہ تھا
یہ جو مقتل سے بچا لائے سروں کو اپنے
ان میں اک شخص بھی کیا میرے گھرانے کا نہ تھا
ہر برس تازہ کِیا عہدِ محبت کو عبث
اب کُھلا ہے کہ یہ تہوار منانے کا نہ تھا
اب کے بے فصل بھی صحرا گل و گلزار سا ہے
ورنہ یہ ہجر کا موسم ترے آنے کا نہ تھا
دوش پر بارِ زمانہ بھی لئے پھرتے ہیں
مسئلہ صرف ترے ناز اٹھانے کا نہ تھا
یار! کیا کیا تری باتوں نے رُلایا ہے ہمیں
یہ تماشا سرِ محفل تو دِکھانے کا نہ تھا
کوئی کس منہ سے کرے تجھ سے شکایت جاناں
جس کو تُو بھول گیا یاد ہی آنے کا نہ تھا
آئے دن اک نئی آفت چلی آتی ہے فرازؔ
اب پشیماں ہیں کہ یہ شہر بسانے کا نہ تھا